Wednesday, May 6, 2020

گُل منجن کے تعلق سے واحدی صاحب کےمعروضات کے جوابات

شہزادۂ فقہ ملت مفتی ابرار احمد صاحب قبلہ کی بارگاہ میں چند معروضات

السلام علیکم ورحمۃ الله و برکا تہ
فقیر نے ۲؍رمضان المبارک ۴۴۱  ۱؁ ہجری بمطابق ۲۶؍پریل ۲۰۲۰  ؁عیسوی بروز اتوار ایک فتوی شائع کیا تھا بنام’’ تربیت افتاء میں گل منجن کی اجازت کیوںـ‘‘ اور اس فتوی میں میں نے خلاصہ کیا تھا کہ مرکز تربیت افتاء میں جوپاخانہ نہ ہو نا عذر بیان کیا گیا ہے کیا یہ عذرشرعی ہے؟ کیاماہ رمضان المبارک میں بحالت روز ہ پاخانہ کرنا فرض و واجب ہے؟ اگر کسی کونہیں ہوتا ہے تو کیا حرج ہے؟ بعد افظارت قبل سحری گل منجن کر لے اور اپنی ضرورت پوری کر لے وغیرہ وغیرہ۔
یہ فتوی شروع میں موجود ہے اور آپ نے پڑھ کر اس پر کچھ تحریر کیا جو میری اور تمام لوگوں کی نگاہوں سے گزرا، میں اس میںمذکور تینوں صورتوں پرمتفق ہوں ،مگر پاخانہ نہ ہونا عذر شرعی ہے اس پر متفق نہیں ہوں، اور میرا اعتراض اسی پر ہے تو آپ کو چاہئے تھاکہ آپ اس کا خلاصہ کر دیتے مگر آپ نے اپنی جوابی تحریر میں میرے اعتراضات کا جواب نہ دے کر کچھ موضوع سے ہٹ کر باتیںتحریر کی ہیں، اب میں پھر سے اپنے اعتراضات پیش کر رہا ہوں اور جواب کا انتظار کروں گا۔
(۱)آپ نے فتاوی بحرالعلوم کی عبارت نقل کر کے فرمایا کہ اس فتوے کا مطلب اگر لوگ کھینی کی طرح گل منجن کا استعمال کرتے ہیں تویہ مفسد صوم ہے یعنی گل منھ میں رکھنا مفسد صوم ہے، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اس کا مطلب یہی ہے جو آپ نے سمجھا؟ یا پھر کھینی کی طرح نہیں بلکہ گل منجن کی طرح استعمال کرنا دانتوں پر بھگو کر ملنا منھ کے بجائے کہیں اور کا استعمال ہوا، منھ کا نہیں؟ جبکہ مشاہدہ یہ ہےکھینی کی طرح منہ میں رکھنے والے اگر پانچ فیصد ہیں تو پنچانوے فیصد منجن کی طرح گل کرنے والے ہیں، تو علامہ نحرالعلوم علیہ الرحمہ نے اس پر جو فتوی دیا اس کے بیان کیا یہاں ضرورت نہیں کیونکہ اس سے آپ بھی آگاہ ہیں ، پس اگر یہی کھینی کی طرح منھ میںرکھنا ہی آپ کے نزدیک فسادِ سوم کے لئے درست ہوتو بقول آپ کے علا مہ بحر العلوم علیہ الرحمہ جاہل ٹھہریں گے یا نہیں؟
کیوں کہ فقہ کا قاعدہ ہے ’’ من لم یعرف اھل زمانہ فھوجاہل‘‘ جو اہلِ زمانہ کا عرف وتعامل نہ جانے وہ جاہل ہے،یونہی داماد فقیہ ملت یعنی آپ کے بہنوئی حضرت علامہ مولانامفتی اختر حسین صاحب قبلہ دامت برکا تہم القدسیہ بھی بقول آپ کےجاہل ٹھہریں گے یانہیں؟ کیونکہ فتاوی علیمیہ میں گل منجن کا وہی مطلب بیان کیا ہے جو علامہ بحرالعلوم علیہ الرحمہ نے بیان کیا ہے۔
(۲) تینوں شقوں کے بیان کے بعد کی جوابی عبارت جو یہ ہے ’’مگر جب زید کوگل استعمال کئے بغیر پاخانہ نہیں ہوتا ،تو اس عذر کی وجہ سے اس کے لئے حکم میں اس قدر تخفیف ہوگی ، کہ وہ گل پہلے ہتھیلی وغیرہ پر نکال کر پانی سے بھگودے، پھر اسے احتیاط کے ساتھ دانتوں پر ملے اور جلد ہی کلی کر کے اچھی طرح اپنا منھ صاف کرلے۔ والله تعالی اعلم۔
اب فقیر پوچھنا چاہتا ہے کہ کیا پاخانہ نہ ہونا عذرشرعی ہے؟ اگر زید کو گل استعمال کئے بغیر پاخانہ نہیں ہوتا، تو کیا بحالت ِروزہ زید کو پاخانہ اتارنا فرض ہے واجب؟ اگر فرض ہے تو دلیل مرحمت ہو، یونہی  وجوب کی دلیل د یں ! اگر واجب گرد انیں ۔
(۳)اسی عذر کا بحالتِ صوم تحقق کب ہوگا؟ آیا الجائ واضطرار کی صورت میں یا علی العموم؟
اس کے تناظر میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ ا جازت و تخفیف تو عذر پر ہی ہوگی نا!یا بغیر عذر ہی ؟ یہاں گل منجن سے پاخانہ بحالت ِروزہ اتارنے کا عذر کیوں کر متصور ہوگا ؟ بحالت اضطرار یا مطلقًا؟
اورگل منجن کے عادی حضرات کتنی بار پاخانہ اتارنے پر بحالت روز ہ مضطر و معذور ہوتے ہیں؟ مشاہدہ تو یہ ہے کہ عا دی حضرات بار با گل منجن کرتے ہیں، تو کیا ہر بار پاخانہ ہی اترتا ہے یا نہیں ؟
(۴)اگرگل منجن خشک ہوتواجز اءحلق سے اترنے کا غالب گمان ہے کیونکہ لعاب کے ساتھ ضرور حلق کو تجاوز کر جائے گا جو مفسد صوم ہے، پھرہتھیلی پر بھگو دینے سے کیا اس کی لعاب سے آمیزش نہ ہوگی ؟ اور یہ بھگو دینا اجزائے گل کو لعاب کے ہمراہ حلق میں جانے سےمانع ہو جائے گا؟ اگر ہاں تو دلیل دیں، اور اگر نہیں تو اس خودساختہ عذر اور آپ کی مہیا کر دہ تخفیف کا کیا فائدہ؟
(۵)کیامحض گل منجن بھگو کر دانت پرمل کر جلدی ہی کھی کر لینے اور منہ صاف کر لینے سے پاخانہ اتر جانے کا یقین و از عان بھی ہے؟ اگرہاں توہاتوا بالدليل؟
(۶) گل منجن ایسا پروڈکٹ ہے کہ اس کا اثر نہ صرف منھ میں حلق سمیت بکھرتاہے بلکہ اس کا اثر دماغ کی طرف بھی چڑھتا ہے بلکہ اس میںموجودتمباکو کا ذائقہ مشام سے ہوتا ہوا دماغ تک پہنچتا ہے جس کی تیزی سے طلب اورلت والے عادی شخص کوتسکین فراہم ہوتاہے، نیز اس میں موجود نکوٹین ہی طالب کو مطلوب ہوتی ہے، جس کی فراہمی سے طالب یعنی استعمال کنندہ محظوظ ہوتا ہے، تو اب بتایاجائے کہ قصداً عود، لوبان کا دھواں سونگھ کر مشام کے راستے دماغ تک پہنچانا یاحلق سے نیچے لے جانا مفسد صوم ہے یا نہیں؟ اگر ہاںمیں جواب ہے تو پھرگل منجن کی بو اور ذائقے کی تیزی دماغ تک پہنچانا یاحلق سے بالقصد اتارنامفسد صوم کیوں نہیں؟ کیا فسا دصوم صرف جانب حلق اجزاء اترنے سے خاص ہے؟ جانب دماغ نہیں؟ فعليکم  بالدليل علی دعواکم.
(۷)اگر بالفرض یہ عذر شری ہے یعنی اتنی شدت سے پاخانہ لگا ہوا ہے جس سے نقصان پہونچنے کا صحیح اندیشہ ہے تو کیا گل منجن ہی ضروری ہے؟ جبکہ انجیکشن سے بھی یہ کام ہوسکتا ہے جو مفسد صوم نہیں؟
(۸)کیا سب گل منجن کے استعمال کرنے والے معذور ہیں؟ فما الدليل عندکم؟
(۹)فقیر پوچھتا ہے کہ اگر کراہت و ممانعت بے عذری کی صورت میں مؤ کد ہے تو آپ کے مفروضہ عذر پربھی احوط عدم استعمال کاحکم ہونا چاہئے نہ کہ استعمال والوں کی وکالت، ور نہ یہ تحقیق نہیں نفسانیت ہوگی ، کیونکہ تمام صیام الی الیل فرض ہے نہ کہ زخیص وتخفیف کی راہ ہموار کرنا۔
(۱۰)گل منجن محض منجن نہیں ہے مطلق منجن پرگل منجن کا قیاس کیوں کر درست ہوگا ؟ کیا لفظ "گل" نے " منجن" کے اطلاق و عموم سےگل منجن" کو خارج نہیں کیا؟
(۱۱)کیاگل منجن تمباکو سے نہیں بنتا ہے؟ اور کیا نام اور شکل بدل جانے سے تمباکو کی حقیقت تبدیل ہوجاتی ہے۔
(۱۲)اگرگل تمباکو نہیں توگل کے ہرڈے پر کینسر کے بارے میں کیوں تحریر ہے؟ جبکہ دوسرے منجن پر نہیں ہے؟
(۱۳)اگر گل تمباکو سے ہی بنتا ہے اور کسی کو تمباکو کی عادت ہو اور بغیر اس کے اس کو پاخانہ نہ ہوتا ہو تو کیا وہ جلاکر پاوڈر بنا کر منجن کی طرح کرسکتا ہے؟ جس طرح آپ نے صورت سوم میں گل منجن کی اجازت دی ہے؟
(۱۴)اگر کوئی بیڑی یا سگریٹ پینے کا عادی ہو اور بغیر اس کے اس کو پاخانہ نہ ہوتا ہو تو کیا وہ اس طرح بیڑی، سگریٹ پی سکتا ہے کہ د ھواں کھینچے مگر حلق کے نیچے نہ اترنے دے؟ کیا اس کی اجازت ہے؟
(۱۵)سرکار اعلی حضرت رضی اللہ عنہ سے جو سوال ہوا تھا کہ جو بادام ، کوئلہ، سپاری وگل وغیرہ کا بنتا ہے۔ الخ تو کیا یہی گل ہے جو آج رائج ہے؟
(۱۶)زوق ومضغ یعنی چکھنے اور لقمہ چبانے کی صورتیں معلل بالاعذار الخارجيہ ہیں مثلا سخت مزاج شوہرکا خوف جونمک مرچ کی زیادتی اور کمی پر ظلم کرتا ہو، یونہی بچہ یا ایسا مریض جو خوداپنا لقمہ نہ چبا سکتا ہو، ان کے لئے چکھنا اور چبانا، یہ اعذار ذوق ومضغ کےہیں مگر ایسا کون سا عذرگل منجن کے استعمال پرمتحقق ہے؟ کیا ایسا کچھ خوف یا اندیشہ ہے کہ صائم نے اگرگل منجن نہ کیا ا سے استعمال کر کے بحالت روز ہ پاخانہ ا تارا تو اس پر ظلم ہوگا؟حاصل کلام یہ ہے کہ گل منجن کے استعمال کا عذر فرضی ہے تحقیقی نہیں کہ اس پرتدبیرو تخفیف کی تجویز پیش کی جائے۔
(۱۷)جس کو دن میں گل منجن کرنے کی عادت ہے کیا وہ سب ہمیشہ گھر ہی پر رہتے ہیں؟ اور اگر کبھی اتفاقا باہربھی جانا ہوتا ہے تو اس صورت میں کیا کرتے ہیں؟ کبھی سفر میں کبھی کوئی اور کام سے نکلتے ہیں یا نہیں ؟ یہ کوئی جانتا ہے، اور کیا بحالت روز ہ شام تک گل منجن کرنا اور پاخانہ اتارناصحیح عذر ہے؟ جبکہ ہوتا ہی نہیں ہے وہ بھی خالی پیٹ۔
(۱۸)جب یہ مسئلہ اجتہادی اور اختلافی ہے تو احوط جانب منع ہی ہوانہ کہ جانب رخصت وجواز ، کیونکہ بصورت اختلاف مذہب ام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ "الاحوط جانب المنع" ہی ہے،یہ چند معروضات بشکل ایرادات ہیں جومع تحفظات پیش ہیں انکا تشفی بخش حل پیش فرمایا جائے ادھر ادھر گھمانے کےبجائے ایرادات علمی جوہر اور مبلغ علم کا مظاہرہ فرمایا جائے ،فقیر ممنون ہو گا، اور بعد تشفی اپنے فتوی سے رجوع کرلے گا۔
                                                                                          فقیر تاج محمد قادری واحدی
                                                                        ۹؍رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ،۳؍ مئی ۲۰۲۰ء بروز اتوا

گُل منجن کے تعلق سے واحدی صاحب کےمعروضات کے جوابات

حامداً ومصلیاً ومسلماً
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
            واحدی صاحب: نے ’’تربیت افتا میں گل منجن کی اجازت کیوں؟‘‘اس عنوان سے ایک فتویٰ لکھ کر نیٹ پر ڈالا جو مجھ تک بھی پہنچا جس کا تفصیلی جواب میں نے ۸؍رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ؁ ،مطابق یکم مئی ۲۰۲۰ء؁ کو دیدیا تھا ،میں نے اس میں پوری وضاحت کردی تھی، سمجھنے والے کے لئے وہی کافی ہے لیکن واحدی صاحب نے ’’چند معروضات ‘‘کے نام سے دوبارہ ایک تحریر نیٹ پر ڈالی ہے،یوں تو معروضات کے اکثر حصہ کا جواب میرے فتوی میں موجود ہے،اس لئے اب اس کی کوئی حاجت نہ تھی ۔پھر بھی اپنی خفت کو مٹانے کے لئے انھیں باتوں کو گھما پھرا کر ’’چند معروضات ‘‘کی شکل میں پیش کردیا ہے ۔ اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ تحریر بھی خود واحدی صاحب کی نہیں ہے کیونکہ واحدی صاحب تو باضابطہ عالم بھی نہیں چہ جائیکہ کچھ اور ہوںجیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اعدادیہ یا اولیٰ جماعت تک کی تعلیم ہے ،ہوسکتا ہے اس تعلیم کے بعد کسی مدرسہ سے دستار وغیرہ بھی حاصل کرلی ہو،ہاں چرب زبان ضرور ہیں ۔اس لئے کہ واحدی صاحب نےاپنے ایک تعارف میں یہ کہا ہےجس میں ان سے پوچھا گیا کہ’’ آپ نےعالمیت اور فضیلت کہاں سے کی ہے‘‘ان کا جواب ہے’’ گائیڈیہ آبائی وطن وبارگاہ مخدوم اشرف رضی اللہ عنہ کچھوچھہ شریف‘‘انہوں نے مدرسہ کا نام ذکر نہیں کیاجو اس بات پر دال ہےکہ جناب نے کسی مدرسہ سےعالمیت و فضیلت نہیں کی ہے،ہاں ممکن ہے بارگاہ مخدوم اشرف قدس سرہ میں کچھ دن مجاوری کی ہو جس کو عالیت وفضیلت سے تعبیر کردی ہے،یہ بات میں نے اس لئے کی ہے کیوں کہ واحدی صاحب نے خود اپنی ایک تحریر میں کہا ہے’’میں نے اپنے گاؤں کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی ہے پھر پیر ٹوٹ گیا تو تعلیم موقوف ہوگئی جس کی وجہ سے آگے تعلیم حاصل نہ کرسکا‘‘اور واحدی صاحب کے وقت میں گائڈیہ میں صرف ثالثہ رابعہ تک ہی تعلیم تھی۔اس لئے ان کو فتوی لکھنے کا تو حق ہی نہیں کیونکہ اعلی حضرت قدس سرہ فرماتے ہیں کہ فتوی اسے لکھنے کا حق ہے جس نے مدتہا طبیب حاذق کا مطب کیا ہو۔
            جیسا کہ فتاوی رضویہ قدیم میں ہے: ’’آج کل درسی کتابیں پڑھنے پڑھانے سے آدمی فقہ کے دروازے میں بھی داخل نہیں ہوتا‘‘(ج:۴،ص:۵۶۵)
            نیز اسی میں ہے: ’’علم الفتوی پڑھنے سے نہیں آتا جب تک مدتہا کسی طبیب حاذق کا مطب نہ کیا ہو‘‘(ج:۹ص:۲۳۱،نصفاو)
            اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میںشارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
            ’’اس زمانے میں سب سے بڑی دشواری یہ ہےکہ بحمدہ تبارک وتعالیٰ مدارس دینیہ کی کثرت ہے اور ہر مدرسے والے دارالافتا کا بورڈ لگائے ہوئے ہیںاور مفتی بٹھائے ہوئے ہیں،ان میں اکثر کے فتاوی دیکھ کر رونا آتا ہے،کسی دل جلے نے مکاتب اسلامیہ کا حال دیکھ کر کہا تھا۔
گرہمیں مکتب و ہمیں ملا
کار طفلاں تمام خواہد شد
            اور اب مجھے اپنے زمانے کا حال دیک کر کہنا پڑتا ہے۔
گر ہمیں مکتب و ہمیں مفتی
کار افتا تمام خواہد شد
                                                                                    (فتاوی برکاتیہ ص:۱۲)
            اسی طرح کی کچھ بات فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ نے بھی تحریر فرمائی ہے:
            آج کل لوگ اس فن کو بہت آسان سمجھنے لگے ہیں کہ ہر مدرسہ والے دارالافتا کابورڈ لگا کر کسی کو مفتی بناکر بٹھائے ہوئے ہیں جن میں اکثر کے فتاوی دیکھ کر  بے انتہا افسوس ہوتا ہے کہ وہ غلط فتاوی لکھ کر مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور خود آسمان وزمین کے ملائکہ کی لعنت کے مستحق ہوتے ہیں(تقدیم :فتاوی مصطفویہ ص:۷)
              اس لئےایسے شخص کے اعتراضات کا جواب دینا کچھ ضروری نہ تھا مگر لوگوں کو اس کا علم نہیں اور انھوں نےاپنے معروضات کو نیٹ پر ڈال دیا ہے،اس لئے ان کی علمی حیثیت کی وضاحت کے بعدجواب دینا ضروری ہوگیا تو یہ میری آخری تحریر ہے اب اس کے بعد کوئی بھی جواب نہیں دیا جائے گا، آپ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ہمارے پاس بے جا بحث و مباحثہ کے لئے فرصت نہیں ہے ۔
            واحدی صاحب: مجھےآپ کی ایک آڈیو کلپ ملی ہے جس میں آپ نے کہاہے’’اگر حضور فقیہ ملت کا فتوی ہوگا تو رجوع کرلوں گا مگر دیکھنا چاہئے مجھے‘‘اس تعلق سے حضور فقیہ ملت قدس سرہ کادرج ذیل صریح فتوی بھیجا گیا ۔اس کے باوجود آپ ہٹ دھرمی پر آمادہ ہیں ماننے کے لئے تیار نہیں۔وہ فتوی یہ ہے۔
            حضور فقیہ ملت قدس سرہٗ سے سوال ہوا:
            ’’گل منجن اور کول گیٹ وغیرہ کا استعمال روزہ کی حالت میں کیسا ہے؟اگر متعدد بار استعمال کیا تو روزہ ٹوٹے گا یا نہیں؟اگر ٹوٹے گا تو قضا وکفارہ دونوں لازم ہوں گے یا صرف قضا؟‘‘
            حضورفقیہ ملت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا جیسا کہ فتاویٰ برکاتیہ میں ہے:
            ’’حالت روزہ میں کسی طرح کا منجن یا کول گیٹ وغیرہ کا استعمال بلا ضرورت صحیحہ مکروہ ہے۔اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی رضی عنہ ربہ القوی تحریر فرماتے ہیں کہ’’منجن حرام وناجائز نہیں جبکہ اطمینان کافی ہوکہ اس کا کوئی جز حلق میں نہ جائےگامگر بے ضرورت صحیحہ کراہت ضرور ہے(فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص:۶۱۴)اگر اس کا کچھ حصہ حلق میں چلا گیا اور حلق میں اس کا مزہ محسوس ہوا تو روزہ جاتا رہا مگر اس صورت میں صرف قضا واجب ہوگی کفارہ نہیں۔ردالمحتار جلد دوم ص:۹۸ میں ہے:
’’اکل مثل سمسمۃ من خارج یفطر الا مضغ بحیث تلاشت فی فمہ الا ان یجد الطعم فی حلقہ ‘‘اھـ۔
            اور حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
            ’’غلطی سے پانی وغیرہ کوئی چیز حلق میں چلی گئی تو صرف قضا واجب ہوگی‘‘(بہار شریعت حصہ پنجم ص:۱۱۹)
            انتباہ:علما کو کافی اطمینان ہو تب بھی منجن نہ استعمال کریں کہ عوام انھیں دیکھ کر استعمال کرنے لگیں گےاور اپنے روزوں کو برباد کردیں گے۔۔۔۔۔اور حالت روزہ میں اگر کسی چیز کا استعمال مکروہ تحریمی ہو تو متعدد بار استعمال کرنے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا صرف گناہ ہوگاجیسے کہ نماز میں آسمان کی طرف نگاہ اُٹھانا مکروہ تحریمی ہے مگر بار بار ایسا کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔واللہ تعالیٰ اعلم۔ کتبہ: جلال الدین احمد امجدی۔
             فقیہ ملت قدس سرہ ٗ کایہ وہ صریح فتوی ہے جس میں آپ نےفرمایا :حالت روزہ میں کسی طرح کا منجن یا کول گیٹ وغیرہ کا استعمال بلا ضرورت صحیحہ مکروہ ہے جبکہ آپ سے سوال گل منجن کے تعلق سے بھی ہوا ہے اور اعلیٰ حضرت سے بھی جو سوال ہوا ہے اس میں بھی گل کا ذکر ہے۔اور حوالہ میں اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہی عبارت پیش فرمائی ہے جس کو میں اپنے فتویٰ میں نقل کرچکا ہوں۔مگر آں جناب کو کسی کی بات تو ماننی نہیں ہے فقیہ ملت ہوں خواہ اعلی حضرت ان کو تو بس اپنی بات منوانی ہے کہ روزے کی حالت میں گل کرنا مفسد صوم ہے۔
            (۱)واحدی صاحب میں نے اپنے فتوی میں فتاوی بحر العلوم کی عبارت نقل کرکے یہ بتانا چاہا ہے کہ مطلق گل کے استعمال کی تمام صورتوں کے لئے آپ نے استدلال کیا ہے جبکہ فتاوی بحر العلوم میں تمام صورتوں کا ذکر نہیں صراحۃًًصرف کھینی کی طرح استعمال کرنے کی صورت کا ذکر ہے اور یہ مفسد صوم ہے جس کا ذکر فتاوی مرکز تربیت افتا میں بھی ہے اس لئے دونوں میں کوئی تضاد نہیں ،اور آپ کو معلوم ہونا چاہئے یہاں’’ کھینی کی طرح استعمال کرنے‘‘ کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ’’منھ میں دباکر رکھنا ‘‘جیسا کہ عام طور پر کھینی کھائی جاتی ہےبلکہ مطلب یہ ہے کہ ’’کھینی کی طرح دیر تک رکھنا‘‘اب چاہے دباکر رکھے یا پانچ دس منٹ تک منھ میں چھوڑ رکھے بہر صورت مفسد صوم ہے ۔
             واحدی صاحب کا کہناکہ’’ اس فتوی کو مکمل پڑھ اور سمجھ کر تصدیق کئے ہیں یا یونہی تصدیق کر دئے‘‘ میں نے اس بے ڈھنگے انداز پر لکھاکہ ایسی گفتگو ایک عامی اور جاہل شخص ہی کرسکتا ہے۔آپ نے اسے علامہ بحرالعلوم کی طرف پھیرکر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
            (۲)واحدی صاحب: اس کا جواب میرےفتوی میں موجود ہے،مزید آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ میری گفتگو فتاوی مرکز تربیت افتا میں شائع مسئلہ اور اس کے سائل کے ارد گرد ہے۔کیونکہ سائل کا سوال یہ ہے کہ’’ جب تک وہ گل نہیں کرتا اس کا پاخانہ نہیں ہوتا‘‘تو یہ حکم صرف اسی کے لئے ہےیا اس جیسے کے لئے ہے اور اسی حد تک ہےجس حد تک اس کو عذروحاجت ہے۔فقہ کا قائدہ ہےـ:’’ما ابیح للضرورۃ یقدر بقدرھا‘ ‘ لہٰذاگر اس کو یہ عذر لاحق ہے کہ بغیر گل منجن پاخانہ نہیں اُترتا تو احتیاط کے ساتھ بھگاکر چند بار دانتوں پر مل لے جب ایک بار ایسا کرلیا اور پاخانہ اُتر گیا عذر ختم ہوگیا، اب دوبارہ اس کو اس طور پر بھی استعمال کی اجازت نہ ہوگی یہی اس فتوی کا مطلب ہےاس کا وہ مطلب ہرگز نہیں جو آپ نے سمجھ لیا ہےکہ جب چاہے کرتا رہے۔اس کے باوجود اگر کوئی کرتا ہے اگرچہ احتیاط کے ساتھ کرے ضرور مکروہ ہے مگر احتیاط کی صورت میں فاسد ہرگز نہیں جیسا کہ آپ نے سمجھ رکھا ہےاور فتاوی فقیہ ملت ،فتاوی رضویہ سے بھی یہی ظاہر ہے۔
            اور پاخانہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پاخانہ لگا ہے مگر پاخانہ جانے پر پاخانہ ہوتا نہیں اور سائل ایسا کہہ رہا ہے تو اسے ایسا ہی ہوگااورپاخانہ نہ ہونے کی صورت میں طبیعت بگڑنے کا خوف ہے اس لئے یہ اس کے حق میں عذر ہے۔کیا پاخانہ اُتارنا جب فرض واجب ہو تبھی عذر متحقق ہوگا؟اورظاہر ہےعذر سائل کو ہے تو قول بھی اسی کا معتبر ہوگانہ کہ آپ کا۔
            (۳)بلاشبہ اجازت وتخفیف عذر ہی کی صورت میں ہوگی یہ حکم علی العموم نہیں تفصیل نمبر ۲ میں گذر چکی اور عذر نہ ہو پھر بھی کوئی کامل احتیاط کے ساتھ کرتا ہے کہ جس میں ذرات زیر حلق اترنے کا احتمال ہو ظن غالب نہ ہو تو مکروہ ہے گو کہ اس صورت میں بھی گل منجن کے استعمال کی فقہا نے سخت ممانعت فرمائی ہے ،فتاوی مرکز تربیت افتا میں مذکور یہی تیسری صورت ہے۔ 
            (۴)گل بھگودینے سے اس کے ذرات اُڑیں گے نہیں اس لئے زیرحلق ان ذرات کے اترنے کا امکان کم سے کم رہ جاتا ہے گو کہ لعاب سے اس کی آمیزش ہوگی ،کیونکہ جب چند بار دانتوں پر ملے گا تو گل کے اجزا کی آمیزش دانتوں سے متصل لعاب ہی میں ہوگی نہ کہ فورا ً پورے منھ کے لعاب میں پھیل جائے گا  جیسا کہ گل یا پاؤڈر والے دوسرے منجن جو لوگ کرتے ہیں وہ اس سے بخوبی واقف ہیں ،گل کرنے والے اس کا تجربہ کر چکے ہیں اگر آپ گل منجن نہیں کرتے تو کولگیٹ پاؤڈر بھگاکر اس کا تجربہ کرلیں تو حقیقت آپ پر بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی۔رہاعذرکا خود ساختہ ہونا تو یہ آپ کی اپنی سوچ ہے حقیقت سے اس کا کچھ واسطہ نہیں ،پھریہ کوئی آپ کے گھر کی جاگیر نہیں کہ جب آپ کہیں گے تبھی عذر ہوگا ورنہ نہیں۔
            (۵)یہ کتنی بڑی دریدہ دہنی کی بات ہے، یہ کب میں نے کہا کہ چند بار بھگوکر گل منجن دانتوں پر مل کر جلد ہی کلی کرلینے اور منھ صاف کرلینے سے پاخانہ اتر جانے کا اذعان ویقین ہے ۔جس قدر تخفیف کی گنجائش تھی وہ دی گئی، اب اگر اس قدر سے کسی کی حاجت پوری نہیں ہوتی تو اس کو اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ہوگی۔
            (۶)عود،لوبان کا دھواں سونگھ کر مشام کے راستے دماغ تک پہنچانا یا گل منجن کی بو اور ذائقہ کی تیزی کا دماغ تک پہنچانا۔ واحدی صاحب : ایک پہنچناہے دوسرےپہنچانادونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے،بالقصد عود ولوبان کا دھواں زیر حلق اُتارنا او دماغ تک پہنچانا ضرور مفسد صوم ہے اور یہاں مذکورہ صورت جس کی رخصت دی گئی ہے اس میں نہ گل دماغ تک پہنچتا ہے نہ ہی زیر حلق اس کے پہچنے کا ظن غالب ہوتا ہے صرف احتمال ہےاور یہ مفسد صوم نہیں۔رہا گل کی بو اور اس کے ذائقہ کے اثر کا دماغ تک پہنچنا تو کسی چیز کے اثر کا پہنچنا مفسد صوم نہیں تو روزہ رکھنا ہی ممکن نہ ہوگا ۔ مزید تفصیل کے لئے اعلی حضرت قدس سرہٗ کا رسالۂ مبارکہ’’الاعلام بحال البخور فی الصیام ‘‘ کا مطالعہ کرلیں۔اہل نظر ہی اس فرق کو سمجھ سکتے ہیں، کاش کہ آپ کی سمجھ میں بھی آجائے۔ اور یقیناً اگر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ضرور سمجھ میں آجائے گا اب اگر کوئی سمجھ کر بھی ناسمجھ بنے تو پوری دنیا مل کر بھی اسے نہیں سمجھا سکتی جیسے کہ کوئی سورہا ہو تو اسے جگایا جاسکتا ہے لیکن کوئی جگ رہا ہے مگر سونے کا بہانا کر رہا ہے اسے پوری دنیا مل کر بھی نہیں جگا سکتی ۔
            (۷)مفسد صوم تو دوسری اور تیسری صورت ہے اورواحدی صاحب: آپ خود اسی معروضات میں اس بات کا اقرار کرچکے ہیں کہ’’میں اُس (یعنی فتاوی مرتز تربیت افتا) میں مذکور تینوں صورتوں پر متفق ہوں‘‘اور اجازت احتیاط کے ساتھ اسی تیسری صورت کی دی گئی ہے جو عذر کی صورت میں مکروہ بھی نہیں تو وہ کوئی بھی صورت اختیار کرسکتا ہے، رہاانجکشن کا استعمال تواس پر جبر کیوں؟ہاں اگر کوئی انجکشن استعمال کرے تو اس کے لئے اجازت ہےہرگز کوئی ممانعت نہیں ۔
            (۸)یہ کہاں سے آپ نے سمجھ لیا کہ گل منجن کرنے والے سبھی لوگ معذور ہیں ہماری گفتگو صرف اس سائل کے تعلق سے ہے جس کا ذکر فتاوی مرکز تربیت افتا میں ہے اور اس تعلق سے پوری گفتگو ماسبق میں کرچکاہوں ۔
            (۹)واحدی صاحب: میں یہ پہلے کہہ چکا ہوں کہ ’’مفروضہ عذر‘‘یہ آپ کے نزدیک ہوگا ،رہا احوط پر عمل تو تیسری صورت میں صرف مکروہ ہےجبکہ استعمال کامل احتیاط کے ساتھ ہواور اس صورت میں سخت ممنوع کا حکم دیا گیا تو یہ احوط ہی پر عمل ہے۔کاش کہ واحدی صاحب کو بھی نظر آجائے۔ رہی تحقیق کی بات تو پشتوں سے ہمارا اس سے ناتا رہا ہےجو اہل علم پر مثل سورج روشن وعیاں ہے،رہی نفسانیت تو یہ آپ کے ساتھ ہے کیونکہ اگرفتاوی مرکز تربیت افتا کے کسی فتوی میں آپ کو تردد یا اشتباہ تھا تو آپ مصدقین یا مرکز کے کسی ذمہ دار سے رابطہ کرتے مگر ایسا نہ کرکے فتوی لکھ کر نیٹ پر ڈال دیا  جبکہ صحیح معنوں میں آپ اس کے اہل بھی نہیں، یہ آپ کی نفسانیت ہی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔رہی بات اس کی کہ فون ریسیو ہی کہاں ہوتا ہے، جیسا کہ آپ نے اپنی ایک آڈیو کلپ میں کہاہے،الحمد للہ میرےتمام  فون چوبیس گھنٹے چالو رہتے ہیں میں اکثر سائلنٹ بھی نہیں کرتا ،اگر میرے فون میں کوئی مس کال بھی رہتی ہے تو فرصت ملنے پراکثر میں کال بیگ کرلیتا ہوں،اگر آپ اپنی بات میں سچے ہیں تو مجھے نمبر دیجئے میں کال ڈیٹیل نکلواکر دیکھتا ہوں کہ کب آپ نے مجھے فون کیا ہے۔ 
            (۱۰)اعلی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کئی منجنوں کے متعلق سے سوال ہوا ،یونہی فقیہ ملت قدس سرہ سے بھی گل منجن اور دوسرے منجنوں کا سوال ہوا مگر آپ نے سب کا ایک ہی جوا ب دیا۔پھر اگر گل منجن میں گل لگنے سے وہ محض منجن نہیں تو پھر کولگییٹ منجن میں کولگیٹ لگنے سے، کلوزپ منجن میں کلوزپ لگنے سے یہ سب بھی محض منجن ہونے سے خارج ہوجائیں گے تو پھرواحدی صاحب بقول آپ کے دنیا کا کوئی منجن محض منجن نہ رہ جائے گا سب کے سب منجن مقید ہوجائیں گے۔ماشاء اللہ کیا ہی خوب استدلال ہے یہ استدلال آپ ہی کو مبارک ہو۔
            (۱۱)اس میں بھی آپ کو کوئی شک ہے کیا ؟بلاشبہ گل منجن تمباکو ہی سے بنتا ہے۔نام اور شکل بدل جانے سے ہرگز تمباکو کی حقیقت نہیں بدل جاتی ،یہ تو مسلمات سے ہے اس کا کون انکار کرسکتا ہے،مگر استعمال کے طریقے بدل جانے سے احکام بدل جاتے ہیں یہ بھی مسلمات سے ہے۔
            (۱۲)گل بیشک تمباکو ہے اس سے کسی کو انکار نہیں۔
            (۱۳)بلا شبہ اگرکسی کو عذر ہےاور اس طریقہ سےاس کا یہ عذر دفع ہوجائےتو ضرور اس کے لئے حکم میں اس قدر تخفیف ہوگی کہ تمباکو کا پاؤڈر ہتھیلی پر رکھ کر بھگودے پھر اسے احتیاط کے ساتھ دانتوں پر ملےاور جلد ہی کلی کرکے منھ صاف کرلے۔اس لئے کہ اس صورت میں ذرات اُترنے کامحض احتمال ہےتو معذور کے لئےیہ مکروہ بھی نہیں۔اورواحدی صاحب :چاہے گل منجن ہویا تمباکو پیس کر پاؤڈر بنالو دونوں ایک ہی چیز ہے ، تو دونوں کا حکم بھی ایک ہی ہوگا۔
            (۱۴)واحدی صاحب: بیڑی سکریٹ میں یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کا کچھ جز حلق کے نیچے نہ جائے،ظن غالب یہی ہے کہ دھواں حلق سے نیچے اُتر جائے گا اس لئے گو کہ اس کا پاخانہ نہ اُترے اسے بیڑی سکریٹ پی کر پاخانہ اُتارنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اس لئے کہ یہ مفسد صوم ہے۔واحدی صاحب:مقصدمحض یہ نہیں کہ پاخانہ اُترجائے چاہے جو کرنا پڑے ،اگر ایسا ہوتا تو تمباکو کھانے اور گل کے استعمال کی پہلی دوسری صورت کی بھی اجازت دے دی جاتی ،مگر ایسا نہیں کیا گیا ۔اس لئے کہ مقصد ایسی صورت سے پاخانہ اُتارنا ہے جو مفسد صوم نہ ہو ۔اور یہ صرف تیسری صورت ہی میں متصور ہےاس لئے صرف اسی تیسری صورت میں تخفیف کرتے ہوئے احتیاط کے ساتھاستعمال کی اجازت دی گئی جس تیسری صورت سے خود آپ بھی متفق ہیں۔
            (۱۵)اعلی حضرت کی عبارت میں اس کی کوئی وضاحت نہیں، ہوبھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہوسکتا ہے، اس کی میں نے کبھی تحقیق نہیں کی ۔
            (۱۶)جس طرح چکھنے اور چبانے میں شوہر کی ناراضگی اوربچہ کی تکلیف کا خوف ہے ایسے ہی یہاں مسئلۂ دائرہ میں گیس وغیرہ بننے سے بھی طبیعت کے خراب اور بیمار ہوجانے کا خوف ہے،جو کسی پر مخفی نہیں۔
            (۱۸)سحری کے بعدجب روزہ دار دن میں سوکر اُٹھتا ہے تو عموما ً ہرایک کو ایک،دو بار حاجت ہوتی ہے ۔پھرہم نے تو صرف عذر والے ہی کے لئے تخفیف کی ہے اب اگر کسی کو یہ عذر نہیں تو اس کے لئے ہرگز یہ تخفیف نہیں ہے ۔مگر واحدی صاحب: مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اتنی صاف، ستھری اور واضح عبارت سے آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ یہ تخفیفی حکم ہر کس وناکس خواہ عذرہو یا نہ ہویا بلا عذر دن میں بار بار گل کرنے والے سبھی کے لئے ہے۔
            (۱۸)واحدی صاحب : تیسری صورت میں احوط ہی پر عمل کرتے ہوئے منع کا حکم بلکہ آپ کی سوچ سے بڑھ کر سخت منع ہے اس سے بڑھ کر احوط پر اور کیا عمل ہوگا۔
            واحدی صاحب: اخیر میں صرف اتنا کہناہے کہ ڈھیر سارے ایرادات کا پُلندہ جو آپ نے نیٹ پہ ڈالا تھا اس گمان سے کہ شاید سوالات کی کثرت سے گھبراجائیں، الحمد للہ یہ ہمارا میدان ہے، ہم اس سے گھبرانے والے نہیں، آپ کے تمام سوالات کے سیدھے سیدھےجوابات دے دئے ہیں،یوں تو پہلی تحریر بھی سیدھی سیدھی تھی مگر آپ نے اس کو گول گول سمجھ لیا تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔یہ تحریر بھی بالکل سیدھی سیدھی ہی ہے اگر آپ سمجھنا چاہیں گے تو بڑی آسانی سے سمجھ جائیں گے،اب اگر سمجھنا ہی نہ چاہیں یا سمجھ کر بھی ناسمجھی کا ثبوت دیں تو اس کی بات ہی الگ ہے، اس کا کوئی علاج ہی نہیں۔اس لئے آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں میری یہ آخری تحریر ہے، اب آپ کی کسی تحریر کا کوئی جوا ب نہ دیا جائے گا۔رہا مبلغ علم تو مجھے جو کچھ اپنے والد ماجد فقیہ ملت قدس سرہ ٗ اور اساتذۂ کرام کی باگاہ فیض سے جو کچھ حاصل ہوا ہے اس کی روشنی میں اپنے مبلغ علم کا مظاہرہ آپ کےسامنے پیش کردیا ہے اور آپ کا مبلغ علم کتنا ہے، اسے حوالہ کے ساتھ ابتدا میں بیان کردیا ہے۔رہارجوع تو کریں یا نہ کریں واحدی صاحب یہ آپ کا اپنا مسئلہ ہے، میرا جو کام تھا وہ میں نے کردیا ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
                                                                                    کتبہ :محمد ابرار احمد امجدی برکاتی
                                                                               خادم افتا مرکز تربیت افتا اوجھا گنج بستی یوپی
                                                                           ۱۰؍رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ؁،۴؍ مئی ۲۰۲۰ء؁
                                                                                                                 
           
           
              

Saturday, May 2, 2020

تقدیم: تارک اعتقاد صحیح سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عدالت میں

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما

لکھتا  ہوں  اچھی  بات،  کسی  کو  سکھا سکوں
سچ  کیا، جھوٹ  کیا  ہے، جہاں  کو  بتا سکوں
سوچوں میں ڈوبنے  سے بھی  لکھنا  نہ  آسکا
یہ  علم  رب  کی  دین  ہے،  سب کو بتا سکوں
اللہ  سرکشوں  کو   ملاتا   ہے   خاک   میں
اور  بندگی   کی    یاد    سبھی   کو   دلاسکوں
بے کار   مت    گنواؤ،   امانت  ہے   زندگی
اور موت  سچ  ہے، اس سے سبھی کو ڈراسکوں
دنیا  کی  محفلوں  سے  تو  بھرتا  نہیں  ہے  دل
اگر وقت کے  ضیاع  سے  سب  کو بچا سکوں
کرتے تھے  جو  خدائی  کا  دعوی  ہوئے  تباہ
قرآں کی  آیتیں  یوں  ہی  پڑھ  کر سنا سکوں
لکھتا ہوں نیک بات کہ اے کاش ساجد میں
خود    کو   ہدایتوں   کا   ذریعہ   بنا  سکوں
اسلام کے ماننے والوں پر ہر دور میں دو چیزوں کی حفاظت لازم و ضروری ہوا کرتی ہے اور یہ دونوں چیزیں ایک مسلم کی ہر قیمتی چیز کی حفاظت و صیانت پر مقدم ہوتی ہیں، ایک عقیدہ اور دوسرے اعمال یعنی فرائض و واجبات وغیرہ، ہر مسلمان کا سب سے اولیں فریضہ ہے کہ وہ اپنے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کرے اور جو چیز اس عقیدہ کی حفاظت میں معاون ہو مثلا نماز وغیرہ اور ذاتی  و جماعتی دفاع کا پختہ انتظام اور تجارت وغیرہ، ان سب کا التزام کرے اور کسی بھی صورت میں ایمان و عقیدہ کا سودہ نہ کرے اور جو چیزیں اس کی حفاظت و صیانت میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، ان میں بھی کسی طرح کی تساہلی نہ برتے؛ کیوں کہ ایمان و عقیدہ ایک ایسی عظیم دولت ہے جس کا دنیا کی قیمتی سے قیمتی چیز بھی بدل نہیں بن سکتی! مگر پھر بھی آج کے دور میں قوم مسلم عقیدہ اور اس کو مضبوط کرنے والی چیزوں کے بجائے دنیا کی قیمتی چیزوں کی بہت زیادہ حفاظت کرتی ہے، اکثریت آنکھ بند کرکے حلال و حرام کا امتیاز کیے بغیر دولت و مادیت کی طرف بھاگتی نظر آتی ہے اور ایمان و عقیدہ کے متعلق عموما فکر مند نظر نہیں آتی؛ یہی وجہ ہے کہ آج یہ قوم مسلم، عقائد اور فرائض و واجبات جیسے اہم اعمال سے بالکل غافل نظر آتی ہے، مسلمانو! اسلام نے اپنے ماننے والوں کو دولت حاصل کرنے سے منع نہیں کیا ہے، ہاں اس بات کی طرف ضرور پوری توجہ دلائی ہے کہ اے میرے ماننے والو! دولت کماؤ مگر ایمان سے کسی بھی صورت میں روگردانی مت کرو، دنیا حاصل کرو مگر جو اعمال دین و ایمان کی حفاظت میں مددگار ہیں، ان میں قطعا لاپرواہی نہ کرو، ورنہ اس طریقہ کار کی وجہ سے تمہارا ایمان تمہارے ہاتھ سے چلا جائے گا یا یہی طریقہ کا ر تمہارے ایمان کے ضائع ہونے کا سبب بن جائےگا، اگر ایسا ہوا؛ تو اے میرے ماننے والو! دنیا و آخرت یا کم از کم آخرت میں تمہاری دولت تمہارے کام نہیں آئے گی، تمہاری دنیا تمہاری حفاظت نہیں کرپائے گی، تمہاری اولاد تمہارا سہارا نہ بن سکیں گی، بلکہ کل قیامت کے دن یہ ساری چیزیں تمہارے منھ پر مار دی جائیں گی، اے میرے ماننے والو! کل تم اس وقت کف افسوس ملوگے، جس وقت تمہارا افسوس کرنا تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہونچاسکے گا؛ اس لیے ابھی بھی وقت ہے، زندگی کی رمق باقی ہے، قرآن پاک اور احادیث نبویہ جن امور کی نشان دہی کریں اور علماے کرام جن اہم باتوں کی طرف توجہ دلائیں، انہیں تسلیم کرو اور انہیں تسلیم کرنے کے بعد ان کے مطابق زندگی گزارو، اگر تم نے ایسا کرلیا؛ تو دنیا و آخرت یا کم سے کم آخرت میں تمہیں کامیاب و سر بلند رہوگے اور تمہیں کوئی بھی سرنگوں نہیں کرسکے گا، مگر دور حاضر میں ایسا بالکل نہیں، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے عقیدہ پر حملہ ہوتا ہے؛ تو ہم دُم دباکر کہیں کونے میں چھپے بیٹھے رہتے ہیں، ہم  پر مصیبت آتی ہے؛ تو ہم ڈر سے روتے ہیں، زلزلے آتے ہیں؛ تو خوف زدہ ہوکر گھر سے نکل کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ہمارے پاس اتنی بھی عقل و فکر نہیں ہوتی کہ ہم ایسی حالت میں اپنے عقیدہ و اعمال کا جائزہ لیں، یہ توفیق نہیں ملتی کہ مسجد کا رخ کرکے مسجد کو آباد کریں اور دیگر فرائض و واجبات کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کریں! عقیدہ اسلام کہتا ہے: اے میرے ماننے والو! جب تم میری حفاظت کی پوری کوشش نہیں کرتے اور میرے احکام پر عمل پیرا نہیں ہوتے؛ تو تمہیں رونے کا کوئی حق نہیں، تمہارے چھپنے اور ڈرنے کی ہمارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں، تمہارے افسوس کرنے کا کوئی مول نہیں، ہمارے یہاں تمہارے تبصرہ کا کوئی اعتبار نہیں اور خوف کی وجہ سے تمہارے گھر سے نکلنے کا کوئی مطلب نہیں، اے میرے ماننے والو! اگر ان چیزوں کو بامقصد بنانا چاہتے ہو؛ تو میری اپنے دلوں میں اور زبانوں پر حفاظت کرو اور کبھی اسے اپنے دلوں سے نکلنے مت دو اور جو اس کو مضبوطی اور پختگی دینے والے اعمال ہیں، ان کا پورا پورا اہتمام کرنے کی کوشش کرو اور کسی طرح ان میں تساہلی نہ کرو، اللہ تعالی تمہارا مددگار ہوگا اور ہر میدان میں تمہیں اچھی کامیابی ملے گی، بس شرط یہ ہے کہ تم کامل مسلمان ہوجاؤ، کامل مسلمان بن گئے؛ تو کامیابی تمہارا مقدر ہے، ان شاء اللہ آج میں اپنی اس تقدیم میں ایمان و عقیدہ سے متعلق اور اس پر ڈاکہ ڈالنے والے اسباب کےبارے میں اختصار کے ساتھ گفتگو کروں گا، تقدیم کے بعد طریقہ کار یہ ہوگا کہ پہلے حدیث کا عربی متن پھر اس کا ترجمہ ذکر کروں گا، اس کے بعد انتباہ کے تحت تبصرہ ہوگا اور کبھی کبھی انتباہ کے بعد نوٹ کے تحت کچھ ضروری باتیں بھی بتادی جائیں گی، حدیث کا اردو ترجمہ اور انتباہ کے تحت  تبصرہ کرنے میں ارشاد الساری، مرقاۃ المفاتیح، عمدۃ القاری اور فتح الباری وغیرہ سے مدد لی گئی ہے، اللہ تعالی ہمیں عقیدے کی حفاظت کرنے کی توفیق سے نوازے اور اس کی حفاظت میں معاون اعمال کی پابندی کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
علم دین اور عصری علوم سے جہالت
            دور حاضر میں تمام خرابیوں بالخصوص عقیدہ میں تباہی پیدا کرنے کا سب سے بڑا سبب جہالت ہے اور اس کا سب سے اہم سبب دین اور فرائض و واجباتِ دین کو پس پشت ڈال کر محض دنیا سے لگاؤ رکھنا ہے، طالبان علوم نبویہ کاعصری علوم سے دوری اور کالیج کے طلبہ کا علم دین اور دین و ایمان کے دائرہ میں رہ کر ماڈرن ایجوکیشن سے بے رغبتی ہے، علم دین سے عام طور پر لوگوں کی اس حد تک بے رغبتی بڑھ گئی ہےکہ  انہیں یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ اصول دین کیا ہیں، کونسا جملہ رب تعالی کے لیے استعمال کرنا چاہیے، کونسا جملہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بولا جانا چاہیے، ملائکہ، فرشتے اور جنات وغیرہ کے بارے میں کیسا عقیدہ رکھنا چاہیے اور ان کے علاوہ دیگر بنیادی چیزوں کی بھی انہیں خبر نہیں ہوتی؛ جس کی بنا پر وہ آج جانے انجانے میں کفر بکتے ہیں اور ایمان جیسی عظیم نعمت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور بعض حضرات کے ایمان کی غیرت اس حد تک مرچکی ہوتی ہے  کہ وہ غیر مسلموں کے رسم و رواج کے مطابق شادی کرتے ہیں، مورتی کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہیں، مورتی کے سامنے دیا جلاتے ہیں اور تحفہ میں غیر مسلموں کو مورتی دیتے ہیں اور تقریبا عام مسلمانوں کی یہ عام وبا ہے کہ ان کے کفریہ میلے ٹھیلے میں جاکر، ان کی شان و شوکت بڑھاتے ہیں۔
دور حاضر  میں مختلف دنیوی میدانوں میں کس قدر ترقی حاصل کی جاچکی ہے، یہ ہر کس و ناکس پر عیاں ہے، اس کے باوجود آج طالبان علوم نبویہ کے لیے عصری علوم و اسبابِ دنیا کو اَچھوت سمجھا جاتا ہے حالاں کہ اگر دیکھا جائے؛ تو صحیح معنوں میں عصری علوم اور اسباب دنیا کا برمحل استعمال یہی علم دین سے مزین لوگ ہی کرنے والے ہیں، اس کے باوجود دور حاضر میں ان علوم و اسباب سے دور و نفور اور ان کے لیے ان علوم کا خاطر خواہ انتظام نہ کرنا قابل صد افسوس ناک ہے، جس کا برا اثر پورے معاشرہ پر واضح طور سے نظر آرہا ہے، آج بھی اگر ہم اپنے مدارس کے نظام میں تھوڑا لچک پیدا کرلیں؛ تو ان علوم و اسباب کا بر محل استعمال کرکے بہت ساری کھوئی ہوئی چیزیں حاصل کی جاسکتی ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ اس دنیا کے ہر میدان میں خلافت کا حق انبیا و رسولان عظام علیہم الصلاۃ و السلام نے ہی ادا کیا ہے؛ تو آج ان کے نائبین ہی دینی و عصری علوم سے مزین ہوکر اور اسبابِ دنیا کو بجا طور پر استعمال کرکے، ان کی نیابت کا حق ادا کرنے والے ہیں، دوسرا کوئی نہیں؛ اس لیے سب نہیں تو کم از کم کثیر تعداد میں اتنے طالبان علوم نبویہ کا پایا جانا ضروری ہے جو دین کے ساتھ عصری علوم میں بھی مہارت حاصل کریں اور  ہر میدان میں اسبابِ دنیا کا صحیح استعمال کرکے ان کے استعمال کا حق ادا کریں اور بقدر حاجت ہر طالب علم عصری علوم ضروری حاصل کرے، نیز جیسے طالبان علوم نبویہ عصری علوم سے غفلت برتتے ہیں، اسی طرح آج عصری علوم کے طلبہ، دینی علوم سے غفلت کرتے ہیں،عموما ماڈرن ایجوکیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو عقیدہ و ایمان سے کوئی مطلب نہیں ہوتا، وہ دین و ایمان کو پس پشت ڈال کر صرف آگے بڑھنا چاہتے ہیں اوریوں  پوری دنیا کو اپنے قبضہ میں کرنے کا خواب دیکھتے ہیں، مگر علم دین اور دین کے دائرہ میں رہ کر ماڈرن ایجوکیشن، جو اس مقصود تک پہونچانے والا ہے، اسی سے غافل ہیں، اپنی زبان سے رب کے ماننے اور اپنے مسلم ہونے کا دعوی تو کر رہے ہیں، مگر اسی زبان سے اپنے رب کی بارگاہ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات استعمال کرتے ہیں اور اپنے اعمال قبیحہ و رذیلہ سے کفریہ میلے ٹھیلے کی شان و شوکت بڑھاتے ہیں، اس کے باوجود یہ سوچ و فکر رکھتے ہیں کہ دنیا ان کے قبضہ میں آجائے، یہ صرف سوچ ہی تک محدود ہے، اگر یہی حالت رہی؛ تو یہ سوچ، سوچ ہی رہے گی، کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گی، اگر شرمندہ تعبیر کرنا ہے؛ تو پہلے اپنے عقیدہ و عمل کی حفاظت کرکے، اس رب کو راضی کرو جس نے تمہاری پوری دنیا کو پیدا کیا ہے، اگر وہ تم سے خوش ہوگیا، وہ تم سے راضی ہوگیا؛ تو سب کچھ تمہارے قدموں میں ڈال دے گا؛ اس لیے ابھی بھی وقت ہے، ہوش میں آؤ اور دین کو پس پشت نہیں بلکہ سب سے پہلے رکھو، کسی بھی صورت میں دین و ایمان کے متعلق کوئی  سمجھوتہ نہ کرو، کم سے کم بقدر ضرورت علم دین حاصل کرو اور ایمان و عقیدہ کے دائرہ میں رہ کر ہی ماڈرن ایجوکیشن حاصل کرو، بولنا ہے تو ناپ تول کر بولو، کوئی کام کرنا ہے؛ تو میزان شریعت میں اسے وزن کرلو، پھر وہ کام کرو، ان شاء اللہ یوں وقت بدلے گا اور اللہ تعالی ہمیں اپنی رحمتوں کے سایہ میں رکھ کر دنیا و آخرت یا صرف آخرت، جہاں ایک مؤمن کا اصلی گھر ،جنت ہے، اس میں ان شاء اللہ ضرور بلند مرتبہ عطا فرمائے گا۔
                ذرا سوچو، اللہ تعالی نے نزول کے اعتبار سے سب سے پہلی آیت میں تعلیم کی طرف توجہ دلائی، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ([1])
                ترجمہ: ((پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا، پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ، جس نے قلم سے لکھنا سکھایا، آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا)) (کنز الإیمان)
                تھوڑا غور کرو، دوسری جگہ رب تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ([2])
                ترجمہ: ((اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا، درجے بلند فرمائے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے)) (کنز الإیمان)
                نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی اس حدیث پاک میں قوم مسلم کو کیا بتانے کی کوشش کی ہے، ذرا سرجوڑ کر دیکھیں اور سوچیں تو صحیح، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
                                                أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَعَلَّمَ لَهُ كَلِمَاتٍ مِنْ كِتَابِ يَهُودَ، قَالَ: ((إِنِّي وَاللَّهِ مَا آمَنُ يَهُودَ عَلَى كِتَابٍ)) قَالَ: فَمَا مَرَّ بِي نِصْفُ شَهْرٍ حَتَّى تَعَلَّمْتُهُ لَهُ، قَالَ: فَلَمَّا تَعَلَّمْتُهُ كَانَ إِذَا كَتَبَ إِلَى يَهُودَ كَتَبْتُ إِلَيْهِمْ، وَإِذَا كَتَبُوا إِلَيْهِ قَرَأْتُ لَهُ كِتَابَهُمْ-([3])
                ترجمہ: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا کہ میں یہود کی کتاب کے کچھ کلمات سیکھ لوں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((بے شک خدا کی قسم میں اپنے خط پر یہود کی طرف سے مطمئن نہیں ہوں)) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ابھی آدھا مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میں نے سریانی کتابت سیکھ لی، مزید فرماتے ہیں: جب میں نے سریانی کتابت سیکھ لی؛ تو جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہود کو خط لکھنا چاہتے، میں ان کو لکھ دیتا اور جب وہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خط لکھتے؛ تو میں اسے حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو پڑھ کر سنادیتا۔
                حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان عالی شان پر بھی تھوڑا غور کریں، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
                                                ((طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِهِ كَمُقَلِّدِ الْخَنَازِيرِ الْجَوْهَرَ وَاللُّؤْلُؤَ وَالذَّهَبَ)) ([4])
                ترجمہ: ((ہر مسلمان مردو عورت پر بقدر ضرورت علم دین حاصل کرنا فرض ہے اور نا اہل کو علم سکھانے والا خنازیر کو جوہر، موتی اور سونا پہنانے والے کی طرح ہے))
ترک فرائض و واجبات، ایمان کی کمزوری
            قوم مسلم کے لیے جس طرح ایمان و عقیدہ کی حفاظت کرنا ضروری ہے بالکل اسی طرح اس قوم کو ایمان و عقیدہ کے لیے معاون ثابت ہونے والی اور اس کو مضبوط و پختہ کرنے والی چیزیں جیسے فرائض و واجبات وغیرہ کی بھی حفاظت کرنا از حد ضروری ہے، اگر قوم مسلم ان فرائض و واجبات کی طرف پوری تَگ و دَو کے ساتھ متوجہ نہیں ہوتی ہے؛ تو یہ اس کے ایمان کی کمزوری ہے اور اس کا کھلا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کے بارے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتی ہے اور نہ ہی اسے ایمان و عقیدہ کے متعلق کوئی فکر ہے؛ کیوں کہ اگر اس قوم کو اپنے ایمان و عقیدہ کے بارے میں کما حقہ فکر ہوتی؛ تو یہ ایمان و عقیدہ کی حفاظت کرنے والی ہر چیز کی طرف پوری توجہ دیتی اور اس کو پوری کوشش کے ساتھ زیر عمل لاتی، مگر حقیقت یہی ہے کہ ایسا نہیں ہے اور جب ایسا نہیں ہے؛ تو یہ قوم اپنے عقیدہ و ایمان کے بارے میں سنجیدہ بھی نہیں ہے اور یہ عدم سنجیدگی اور اس کی جانب سے فرائض و واجبات کی طرف سے اس قدر لاپرواہی، اس کے ایمان کی کمزوری ہے، جو اسے کفر سے قریب کردیتی ہے اور جو کفر سے قریب ہوتا ہے بعید نہیں کہ وہ کفر میں بھی اوندھے منھ گرجائے اور اسے اس رذالت میں گرنے کا احساس تک نہ ہو۔
                ذرا اللہ تعالی کے اس ارشاد میں غور کریں، فرماتا ہے: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ثُمَّ رَدَدْنٰهُ أَسْفَلَ سٰفِلِينَ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ([5])
                ترجمہ: ((بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا، پھر اسے ہر نیچی سے نیچی سی حالت کی طرف پھیر دیا، مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ انہیں بے حد ثواب ہے)) (کنز الإیمان)
                تھوڑا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کے بارے میں سر جوڑکر سوچیں، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ - أَوِ الشِّرْكِ - تَرْكُ الصَّلَاةِ)) ([6])
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((بندہ اور کفر یا شرک کے درمیان فاصلہ کم کرنے والی عبادت، نماز کو چھوڑنا ہے))
ذرا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان عالی شان کی طرف گہری توجہ دیں، حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((مَثَلُ الجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالجَلِيسِ السَّوْءِ، كَمَثَلِ صَاحِبِ المِسْكِ وَكِيرِ الحَدَّادِ، لاَ يَعْدَمُكَ مِنْ صَاحِبِ المِسْكِ إِمَّا تَشْتَرِيهِ، أَوْ تَجِدُ رِيحَهُ، وَكِيرُ الحَدَّادِ يُحْرِقُ بَدَنَكَ، أَوْ ثَوْبَكَ، أَوْ تَجِدُ مِنْهُ رِيحًا خَبِيثَةً)) ([7])
((اچھے و برے دوست کی مثال مشک بیچنے والے اور بھٹی پھونکنے والے کی طرح ہے، مشک والا تمہیں نفع سے دور نہیں رکھے گا، یا تو تم اس سے مشک خرید لوگے یا کم از کم تمہیں اس کی خوشبو حاصل ہوگی، اور بھٹی پھونکنے والا تمہارے بدن یا کپڑے کو جلادے گا یا پھر تم اس کی بری بو محسوس کروگے))
گمراہ فرقے اور قوم مسلم
            صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے لے کر آج تک اسلام کے ماننے والوں میں سے ہی اسلام مخالف فرقے جنم لیتے رہے اور شاید قیامت تک جنم لیتے رہیں گے، مگر جس طرح ماضی میں سرخیل علماے کرام کے ذریعہ ان کی سرکوبی کی گئی، اسی طرح ان شاء اللہ تاقیامت، اللہ تعالی ایسے لوگوں کو پیدا فرماتا رہے گا، جو ان کی سرکوبی  کے لیے کافی ہوں گے، ماضی قریب میں جس فرقے نے سب سے زیادہ قومِ مسلم کے درمیان شدید تفرقہ پھیلایا ہے، وہ ابن عبد الوہاب اور اس کے ماننے والوں کا فرقہ ہے، اس فرقہ کی وجہ سے خلافت عثمانیہ اپنے آخری انجام کو پہونچی، اس فرقہ کی وجہ سے ماں، باپ، اپنے بیٹے و بیٹی سے جدا ہوگئے، بھائی، بہن، اپنے ہی بھائی و بہن کے دشمن ہوگئے اور ایک مسلم اپنے ہی رشتہ دار کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرنے لگا؛ جس کی بنیاد پر عرب میں اہل عرب، دیگر ممالک میں علماے کرام اور بالخصوص ہندوستان میں سیف اللہ المسلول علامہ فضل رسول قادری بدایونی اور اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہم الرحمۃ و الرضوان اور آپ کے زمانہ کے دیگر علماے اجلہ نے اہل سنت و جماعت کو اس فرقہ سے بچانے کی بھرپور کوشش فرمائی اور الحمد للہ یہ حضرات خلوص و للہیت، زمینی کام اور دن و رات کی سعی مسعود کی وجہ سے اپنے اس اہم کام میں کافی حد تک کامیاب بھی نظر آئے، مگر جب ان حضرات کا زمانہ گزر گیا؛ تو عموما بعد کے علما کے درمیان سے خلوص و للہیت رخصت ہوتی نظر آئی، عموما زمینی کام کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں رہی، صرف جلسہ و جلوس اور نعرہ کی گونج کے درمیان سمٹ کر رہ گئے، اپنوں کے درمیان تشدد کی بہتات نظر آنے لگی اور دین کے نام پر تقریبا ہر ایک کو صرف اپنے پیٹ کی فکر رہ گئی، اب اس کے لیے چاہے کسی اپنے کی پگڑی اچھالنی پڑے یا پھر قوم مسلم کو تباہی کے دہانے پر لے جانا پڑے، ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا، بس اپنا کام بنتا، بھاڑ میں جائے جنتا، اس لاپرواہی اور زمینی کام نہ کرنے وغیرہ کی وجہ سے نتیجہ سامنے آیا، بہت سارے لوگ قرآن و حدیث کے خلاف جاکر دھیرے دھیرے، اس گمراہ فرقہ سے دور رہنے کے بجائے، ان سے دوسستی کا ہاتھ بڑھانے لگے، ان سے رشتہ ازدواج قائم کرنے لگے، ان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ بننے لگے اور کچھ لوگ ان سے الفت و محبت کا بھی دم بھرنے لگے، جس کے نتیجہ میں اہل سنت و جماعت کے بہت سارے لوگ بالخصوص عوام، ان کے دام فریب میں پھنس کر گمراہیت و ضلالت کے دلدل میں پھنستے چلے گئے اور نوبت ایں جارسید کہ جس گاؤں یا شہر میں پوری قوم مسلم سنی تھی، وہاں عموما آج اکثریت یا آدھے لوگ وہابیت کی زد میں آگئے بلکہ بہت سارے گاؤں اور شہر، پورے طور سے وہابیت کے دام فریب کے شکار ہوگئے، شاید باید ہی کوئی ایسا گاؤں یا شہر ہے جہاں سنیت نے اپنے قدم جمایا ہے اور وہاں اپنی حقانیت کے پَر پھیلائے ہیں؛ اس لیے اگر اب بھی علماے کرام اپنی ذمہ داری کما حقہ ادا نہیں کیے اور اس اہم ذمہ داری کے ادا کرکنے والے کا ساتھ نہیں دئے؛ تو وہ دن بھی دیکھنا پڑے گا جس دن اپنا خود کا گھر اس فرقہ کے لپیٹ میں ہوگا؛ لہذا ابھی کسی قدر غنیمت ہے،  علماے حق کو چاہیے کہ اَنا، میَں اور دین کے نام پر خالص اپنی منفعت کو پس پشت ڈال کر، اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے، خلوص و للہیت کے ساتھ، گَوَیّوں، جاہل مقرروں اور پیشہ ور خطیبوں سے جلسہ و جلوس کودور رکھتے ہوئے، بقدر  ضرورت جلسہ و جلوس وغیرہ کے ساتھ ساتھ ایک ساتھ مل کر اور ایک ساتھ نہ سہی تو فرداً فرداً ہی زمینی کام کی طرف توجہ دیں، ان شاء اللہ نتیجہ بہتر بلکہ بہت بہتر آئے گا۔
                علما و ذمہ داران ذرا اس حدیث کو دل سے پڑھنے کی کوشش کرکے اپنی ذمہ داریوں کا ناقدانہ جائزہ لیں، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((کُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ، فَالإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَهِيَ مَسْئُولَةٌ، وَالعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ، أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ))([8])
ترجمہ: ((تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا، امام ذمہ دار ہے، اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا، مرد اپنے اہل کا ذمہ دار ہے، اس سے اس کے اہل کے بارے میں پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دار ہے، اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا، غلام اپنے مالک کےمال کا ذمہ دار ہے، اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا، خبردار تم میں ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا))
وہابیت کی علامات احادیث کی روشنی میں
            مولاے کل، سید کونین، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، پوری انسانیت کو راہ راست کی طرف رہنمائی کرنے اور اس راہ راست میں رکاوٹ بننے والی ہر چیز سے آگاہ کرنے آئے تھے، انہیں رکاوٹوں میں سے ایک رکاوٹ وہابیت خارجیت زمانہ بھی ہے، جس کے متعلق حضور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو آج سے چودہ سو سال پہلے ہی متنبہ فرمایا دیا تھا کہ یہ فرقہ جانبِ مشرق، نجد سے پیدا ہوگا:
                حدیث پاک میں ہے: عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مُسْتَقْبِلٌ المَشْرِقَ يَقُولُ: ((أَلاَ إِنَّ الفِتْنَةَ هَا هُنَا، مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ))([9])
                ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس حال میں فرماتے ہوئے سنا کہ وہ مشرق کی جانب چہرا کیے ہوئے تھے:
                ((خبر دار بے شک فتنہ یہاں ہے، یہاں سے شیطان کی سینگ نکلے گی))
                دوسری حدیث مبارکہ میں ہے: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ المَشْرِقِ، وَيَقْرَءُونَ القُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لاَ يَعُودُونَ فِيهِ حَتَّى يَعُودَ السَّهْمُ إِلَى فُوقِهِ)) قِيلَ مَا سِيمَاهُمْ؟ قَالَ: ((سِيمَاهُمْ التَّحْلِيقُ)) أَوْ قَالَ: ((التَّسْبِيدُ))([10])
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی  اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((مشرق کی جانب سے کچھ لوگ نکلیں گے، قرآن پاک پڑھیں گے مگر قرآن ان کے حلق سے تجاوز نہیں کرے گا، یہ لوگ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، پھر دین میں نہیں لوٹیں گے یہاں تک کہ خود تیر قَوس کی طرف لوٹ آئے)) عرض کیا گیا: ان کی علامت کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((ان  کی علامت بال منڈانا ہے)) یا فرمایا: ((بال بالکل جڑ سے اکھیڑنا ہے))
امام علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أي من جهة مشرق المدينة كنجد وما بعده وهم الخوارج ومن معتقدهم تكفير عثمان -رضي الله عنه- وأنه قتل بحق ولم يزالوا مع عليّ حتى وقع التحكيم بصفين فأنكروا التحكيم وخرجوا على عليّ وكفّروه‘‘۔([11])
ترجمہ: ’’یعنی مدینہ شریف کے مشرق کی جانب سے نکلیں گے، جیسے نجد اور اس کے بعد والے علاقے، اور یہ لوگ خوارج ہیں، ان کے عقائد میں سے ایک امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی تکفیر ہے اور یہ کہ ان کا قتل کیا جانا حق بجانب ہے، یہ لوگ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے، یہاں تک کہ مقام صفین میں تحکیم کا مسئلہ واقع ہوا، ان لوگوں نے تحکیم کا انکار کرکے امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا اور ان کی تکفیر کی‘‘۔
اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اہل نجد کے بارے میں دعا کرنے کے لیے کہا؛ تو آپ نے دعا کرنے کے بجائے وہاں کے فتنوں سے متنبہ کیا، پڑھیں اور اپنا رشتہ قائم کرنے میں پورے چاک و چوبند رہیں:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْھُمَا، قَالَ: ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا))  قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَفِي نَجْدِنَا؟ قَالَ: ((اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا))  قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَفِي نَجْدِنَا؟ فَأَظُنُّهُ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ: ((هُنَاكَ الزَّلاَزِلُ وَالفِتَنُ، وَبِهَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ))([12])
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ دعا فرمائی: ((اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک یمن میں برکت عطا کر)) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! اور ہمارے نجد میں؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک شام میں برکت عطا کر، اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک یمن میں برکت عطا فرما)) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور ہمارے نجد میں؟ راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تیسری مرتبہ میں فرمایا: ((وہاں زلزلے اور فتنے ہیں، وہیں شیطان کی سینگ طلوع ہوگی))
احادیث اور صحابہ کرام کے بعض اقوال کے دائرہ میں رہ کر، ذیل میں اس فرقہ وہابیہ ضالہ خوارج کی مزید بعض علامات و نشانیاں بیان کی جاتی ہیں، جو یقینا حتما، اس فرقہ نامرضیہ پر صادق آتی ہیں، قارئین اسے ملاحظہ فرمائیں اور صدق دل سے اس فرقہ باطلہ کا جائزہ لیں، ان شاء اللہ حق واضح ہوجائے گا اور اس فرقہ فاسدہ سے کبھی ہم رشتہ ازدواج قائم کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اور نہ ہی کوئی ایسا تعلق رکھیں گے؛ جس کی وجہ سے ہمارے  دین و سنیت پر کوئی ضرب آئے، ملاحظہ فرمائیں:
                عَنْ عَلِيّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((سَيَخْرُجُ قَوْمٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ، أَحْدَاثُ الأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الأَحْلاَمِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ البَرِيَّةِ، لاَ يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ، كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ))([13])
                ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((زمانہ کے آخر میں ایک قوم نکلے گی، وہ کم سن لڑکے، دماغی طور پر نہ پختہ ہوں گے، وہ بظاہر سب سے بہترین قول، قرآن کی بات کریں گے،مگر ایمان ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے یوں خارج ہو چکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے، جہاں تمہاری ان سے ملاقات ہو، وہیں انہیں قتل کردو؛ کیوں کہ ان کے قتل کرنے کی وجہ سے قیامت کے دن قتل کرنے والے کے لیے اجر و ثواب ہے))
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اپنی طویل حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقوی و امانت پر سوالیہ نشان قائم کرنے والے کے بارے میں بعض اوصاف بیان کرتے ہیں :
((كث اللحية، محلوق الرأس، مشمر الإزار))
نیز حضور سرور دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں ارشاد فرمایا:
((إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبًا، لاَ يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ۔۔۔الحدیث))([14])
ترجمہ: ((گھنی داڑھی، سرمنڈے، بہت اونچا تہ بند باندھنے والے۔۔۔اس شخص کی نسل سے ایک قوم نکلے گی جس کی زبان کثرت تلاوت سے تر ہوگی، اچھی آواز والے ہوں گے مگر یہ تلاوت  اس کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی))
حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ اپنی طویل حدیث میں کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((سِيمَاهُمْ التَّحْلِيقُ، لَا يَزَالُونَ يَخْرُجُونَ حَتَّى يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ۔۔۔الحدیث))([15])
ترجمہ: ((اس قوم کی علامت بال منڈانا ہے، یہ لوگ نکلتے رہیں گے، یہاں تک ان کا آخر، مسیح دجال کے ساتھ نکلے گا۔۔۔الحدیث))
امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اے لوگو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَيْسَ قِرَاءَتُكُمْ إِلَى قِرَاءَتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صَلَاتُكُمْ إِلَى صَلَاتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ بِشَيْءٍ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ۔۔۔الحدیث))([16])
                ترجمہ: ((میری امت سے ایک قوم نکلے گی، وہ قرآن پڑھے گی، تمہاری قراءت، ان کی قراءت، تمہاری نماز، ان کی نماز، تمہارے روزے، ان کے روزے کے بالمقابل کچھ بھی نہیں ہوں گے، قرآن پڑھیں گے اور گمان کریں گے کہ وہ ان کے موافق ہے حالاں کہ وہ ان کے خلاف ہوگا، ان کی نماز، ان کے حلق سے تجاوز نہیں کرے گی۔۔۔الحدیث))
                عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي اخْتِلَافٌ وَفُرْقَةٌ، قَوْمٌ يُحْسِنُونَ الْقِيلَ وَيُسِيئُونَ الْفِعْلَ۔۔۔۔۔هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ۔۔۔۔يَدْعُونَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيْءٍ۔۔۔الحدیث))([17])
                ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
                ((عن قریب میری امت میں اختلاف و افتراق ہوگا، ایک قوم ایسی ہوگی جس کا قول اچھا مگر اخلاق کے اعتبار سے بری ہوگی۔۔۔وہ مخلوق و اخلاق میں سب سے بری ہوگی۔۔۔یہ قوم کتاب اللہ کی طرف بلائے گی مگر خود اس کا، اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا))
                حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث میں مروی ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے جب ذو الخوصیرۃ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا؛ تو حضور صلی  اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
                ((دَعْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلاَتَهُ مَعَ صَلاَتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ ۔۔۔۔۔ وَيَخْرُجُونَ عَلَى حِينِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ))([18])
                ترجمہ: ((اسے چھوڑ دو؛ کیوں کہ اس کے کچھ ماننے والے ایسے ہوں گے کہ تم اپنی نماز کو ان کی نماز اور اپنے روزے کو ان کے روزوں کے بالمقابل بہت کم سمجھو گے۔۔۔یہ قوم لوگوں کے اختلاف کے وقت نکلے گی))
                حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے اپنی طویل حدیث میں ذکر کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امانت و تقوی پر چیں بجبیں ہونے والے کے بارے میں آپ نے فرمایا:
                                                ((يَقْتُلُونَ أَهْلَ الإِسْلاَمِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الأَوْثَانِ، لَئِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ))([19])
                ترجمہ: ((اس کی نسل سے ایک قوم نکلے گی جو مسلمانوں کو قتل کرے گی اور بتوں کی پوجا کرنے والوں کو چھوڑ دے گی، اگر میں ان کا زمانہ پاؤں؛ تو انہیں قوم عاد کی طرح قتل کروں))
                حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس خوارج کا ذکر ہوا؛ تو آپ نے ارشاد فرمایا:
        ’’يؤمنون بمحكمه، ويهلكون عند متشابهه! وقرأ ابن عباس:﴿وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ﴾ الآية‘‘.([20])
                ترجمہ: ’’قر آن پاک کے محکم پر ایمان لاتے ہیں اور ا س کے متشابہ میں ہلاک ہوتے ہیں، پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: ﴿وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرّٰسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ ([21]) ترجمہ: ((اور اس کا ٹھیک پہلو اللہ ہی کو معلوم ہے اور پختہ علم والے کہتے ہیں، ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کے پاس سے ہے اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے))‘‘۔ (کنز الإیمان)
                حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں سب سے بری مخلوق قرار دیا، ملاحظہ فرمائیں:
        عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ أَنَّهُ سَأَلَ نَافِعًا كَيْفَ كَانَ رَأْيُ بن عُمَرَ فِي الْحَرُورِيَّةِ، قَالَ:
’’كَانَ يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللَّهِ، انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتِ الْكُفَّارِ فَجَعَلُوهَا فِي الْمُؤْمِنِينَ‘‘۔([22])
                ترجمہ: حضرت بکیر بن عبد اللہ رحمہ اللہ نے حضرت نافع رحمہ اللہ سے پوچھا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حَروریہ کے بارے میں کیسی رائے رکھتے تھے؛ تو آپ نے فرمایا:
                ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما انہیں مخلوق میں سب سے برا سمجھتے تھے؛ کیوں کہ انہوں نے کفار کے متعلق آیات کو مؤمنین پر چسپا کرنے کی کوشش کی‘‘۔
ان احادیث طیبہ اور آثار مبارکہ کی روشنی میں اگر وہابیت اور اسی سے پیدا ہونے والی دیوبندیت وغیرہ کا جائزہ لیا جائے؛ تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ مندرجہ بالا ساری نشانیاں، ان کے اندر پائی جاتی ہیں، اب ہونا یہ چاہیے تھا کہ علماے اہل سنت  ان کے درمیان تبلیغ کرنے کی کوشش کرتے اور اہل سنت و جماعت کے عام لوگ، ان سے دور رہتے، عوام ان سے شادی نہ کرتے، ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے نہیں، ان کے ساتھ کھاتے پیتے نہیں اور نہ ان کے ساتھ الفت و محبت کا دم  بھرتے:
ذرا اللہ تعالی کے اس فرمان کو تو دیکھو، فرماتا ہے: ﴿وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ([23])
ترجمہ: ((اور ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آگ چھوئے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حمایتی نہیں پھر مدد نہیں پاؤگے)) (کنز الإیمان)
تھوڑا اللہ تعالی کے اس حکم کو نظر عبرت سے تو پڑھو: ﴿وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آیٰتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِينَ([24])
ترجمہ: ((اور اے سننے والے جب تو انہیں دیکھے جو ہماری آیتوں میں پڑتے ہیں تو ان سے منھ پھیر لے جب تک اور بات میں نہ پڑیں اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ)) (کنز الإیمان)
دنیا سے تھوڑا الگ ہوکر اور دل و دماغ کو حاضر کرکے اس حدیث کو پڑھو، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالم ﷺ نے حکم فرمایا: ((إِنْ مَرِضُوْا فَلَا تَعُوْدُوْھُمْ وَ إِنْ مَا تُوْا فَلَا تَشْھَدُوْ ھُمْ وَ إِنْ لَقِیْتُمُوْھُمْ فَلَا تُسَلِّمُوْا عَلَیْھِمْ وَ لَا تُجَالِسُوْھُمْ وَ لَا تُشَارِبُوْ ھُمْ وَ لَا تُوَاکِلُوْھُمْ وَ لَا تُنَاکِحُوْھُمْ وَ لَا تُصَلُّوْا عَلَیْھِمْ وَ لَا تُصَلُّوْا مَعَھُمْ))([25])
ترجمہ: ((بدمذہب اگر بیمار پڑیں؛ تو ان کی عیادت نہ کرو، اگر مرجائیں؛ تو ان کے جنازے میں شریک نہ ہو، ان سے ملاقات ہو؛ تو انہیں سلام نہ کرو، ان کے پاس نہ بیٹھو، ان کے ساتھ پانی نہ پیو، ان کے ساتھ کھانا نہ کھاؤ، ان کے ساتھ شادی بیاہ نہ کرو، ان کے جنازہ کی نماز نہ پڑھو اور ان کے ساتھ نماز نہ پڑھو))
مگر اہل سنت و جماعت کے بہت سارے  لوگوں نے ان تمام آیات و احادیث کی  ساری حدیں پھلانگ کر ان کے ساتھ ہر رشتہ قائم کیا بلکہ بہت سارے نا عاقبت اندیش لوگ، ان کے عقائد فاسدہ اور افکار باطلہ کے ہم نوا ہوگئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہابیت و دیوبندیت، عوام اہل سنت  کے درمیان بہت ساری جگہوں پر پنپتی ہوئی نظر آئی اور ان کے درمیان اپنی ساخت مضبوط سے مضبوط تر اور پختہ کرتی ہوئی دکھائی دی اور ہم عموما تبلیغی اور زمینی کام کو بالائے طاق رکھ کر صرف مدارس، امامت، تقریر اور پیری مریدی وغیرہ پر تکیہ کیے آرام سے چین کی نیند لیتے رہے اور اگر کوئی اس طرح کے اہم کام کی طرف قدم بڑھایا؛ تو ہم نے اس کی ٹانگ کھینچنے یا اسے بالکل نظر انداز کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی؛ کیوں کہ عموما ہمیں کام والے نیک آدمی سے محبت نہیں بلکہ ایسے شخص سے عموما محبت ہے جو ایک تعویذ کے ذریعہ ہماری دنیا بنانے کا دعوی کرے، ایک دعا کے ذریعہ جنت الفردوس پہونچانے کا حسین منظر دکھائے، ایک کھوکھلے ڈائلاگ اور نعرہ کے ذریعہ سارے مجمع کو اپنا ہمنوا بنانے کی بےجا کوشش کرے اور ہر برے و اچھے عمل پر گُن گاتا رہے، اے سنی مسلمانو! اگر یہ احادیث اور آیات بھی تمہیں وہابیت و دیوبندیت سے دور نہ رکھ سکیں اور علما اب بھی اپنے بنیادی تبلیغی کام میں مناسب تیزی نہیں لائے اور عوام نے اپنے ترجیحات کا ذائقہ نہیں بدلا؛ تو یہ سمجھ لو بلکہ یقین کرلو کہ تم نے خود اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کو دعوت دی ہے، جس کا علاج کوئی نہیں کرسکتا جب تک کہ تم خود اپنا علاج کرنے کی کوشش نہ کرو۔
اگر آپ کے اندر تھوڑی سی بھی ایمان کی کَسَک باقی ہے اور قوم مسلم کے لیے تھوڑا سا بھی درد، نہاں خانہ میں پایا جاتا ہے؛ تو مندرجہ ذیل آیات و احادیث ملاحظہ کرکے اپنے ایمان و عمل کو جِلا بخشنے کی سعی مسعود کرو اور اپنے اندازِ زندگی کو بدلنے کی پوری کوشش کرو:
ایمان جیسی لازوال نعمت سے سرفراز ہونے کے بعد ایک مسلم کے لیے ایمان و عمل پر ہر حال میں استقامت، دوام اور ہمیشگی  ضروری ہے:
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ([26])
ترجمہ: ((تو قائم رہو جیسا تمہیں حکم ہے اور جو جو تمہارے ساتھ رجوع لایا ہے اور اے لوگو! سرکشی نہ کرو، بے شک وہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے)) (کنز الإیمان)
ورنہ اگر ایمان میں کوئی کھوٹ پیدا ہوا؛ تو دنیا کی پُر اطمینان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھوگے اور دنیا کی نہ سہی تو آخرت کی سب سے قیمتی زندگی ضرور تاراج ہوجائے گی:
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيٰتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ([27])
ترجمہ: ((اور اے محبوب! اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے ہم تو یوں ہی ہنسی کھیل میں تھے، تم فرماؤ، کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو؟! بہانے نہ بناؤ، تم کافر ہوچکے مسلمان ہوکر)) (کنز الإیمان)
اور اگر ایمان میں نہیں مگر بنیادی فرائض و واجبات کی ادائےگی میں انتہائی درجہ کی بے اعتنائی اور لاپرواہی پائی جاتی ہے؛ تو اگرچہ آخر کار ایک مؤمن کا ٹھکانہ جنت ہے مگر اس سے پہلے ہماری  لاپرواہی کے بھیانک نتائج اپنے پاؤں پسارے ہمارا انتظار کر رہے ہیں:
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ([28])
ترجمہ: ((تو ان نمازیوں کی خرابی ہے جو اپنی نماز سے بھولے بیٹھے ہیں)) (کنز الإیمان)
حضرت نوفَل بن معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ فَكَاَنّما وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ))([29])
ترجمہ: ((جس نے نماز چھوڑی گویا کہ اس کے اہل و مال ہلاک کردئے گئے))
اگر آج بھی علما، سلف صالحین کی طرح اپنی ذمہ داری پوری کریں، مسلمان ایمان کے منافی کام نہ کریں، فرقہ باطلہ سے دوری بنائے رہیں اور کم از کم بنیادی اعمال میں تساہلی نہ کریں؛ تو اے مسلمانو! یاد رکھواللہ جل شانہ نے خلافت کا سہرا تمہارے ہی سر باندھ رکھا ہے، بس شرط یہ ہے کہ تم کامل مؤمن بن جاؤ:
دیکھو اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفٰسِقُونَ([30])
ترجمہ: ((اللہ نے وعدہ دیا ان کو جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ ضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا، جیسی ان سے پہلوں کو دی اور ضرور ان کے لیے جمادے گا، ان کا وہ دین جو ان کے لیے پسند فرمایا ہے اور ضرور ان کے اگلے خوف کو امن سے بدل دے گا، میری عبادت کریں، میرا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں اور جو اس کے بعد ناشکری کرے تو وہی لوگ بے حکم ہیں)) (کنز الإیمان)
یوں رب تعالی تمہارے برے دن، اچھے دن میں بدل دے گا؛ کیوں کہ تمہارے رب تعالی کی عادت قدیمہ ہے کہ جو قوم خلوص کے ساتھ اپنے آپ کو اچھائی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کے لیے سچی قربانیاں دیتی ہے؛ تو وہ رب تعالی اس قوم کی حالت بہت بہتر بنادیتا ہے اور اسی کے ہاتھوں میں دنیا کی باگ و ڈور تھمادیتا ہے:
رب تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِينَ([31])
ترجمہ: ((اگر تمہیں کوئی تکلیف پہونچی تو وہ لوگ بھی ویسی ہی تکلیف پاچکے ہیں، اور یہ دن ہیں جن میں ہم نے لوگوں کے لیے باریاں رکھی ہیں اور اس لیے کہ اللہ پہچان کراوے ایمان والوں کی اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ دے اور اللہ دوست نہیں رکھتا ظالموں کو)) (کنز الإیمان)
اللہ تعالی مزید ارشاد فرماتا ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ([32])
ترجمہ: ((بے شک اللہ کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل دیں)) (کنز الإیمان)
اور اس طرح اللہ جل و علا ایمان پر مضبوطی سے قائم رہنے والے، ایمان کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے فرائض و واجبات کی قدر کرنے والے اور عملی کردار پیش کرنے والے لوگوں کو دنیا و آخرت میں ضرور بلندیاں عطا فرماتا ہے:
                اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ([33])
                ترجمہ: ((اور نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ، تمہیں غالب آؤگے اگر ایمان رکھتے ہو))
دوسری جگہ رب تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا([34])
ترجمہ: ((بے شک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے فردوس کے باغ ان کی مہمانی ہے)) (کنز الإیمان)
اللہ تعالی علما، خواص و  عوام، سبھی لوگوں کو خلوص و للہیت کے ساتھ ہر میدان میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ طفیل اپنی کامل ذمہ داری ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
ہدیہ تشکر: میں اپنے تمام مخلصین حضرات بالخصوص مشفق و مکرم فخر القراء حضرت مولانا قاری خلق اللہ خلیق فیضیصاحب قبلہ دام ظلہ، سابق استاذ دار العلوم فیض الرسول، براؤں شریف، سدھارتھ نگر کا شکر گزار ہوں، جنہوں نے اپنی دعاؤں، نیک مشوروں سے نوازا اور اس کتاب پر اپنی تقریظ جمیل لکھ کر راقم الحروف کی حوصلہ افزائی فرمائی، نیز راقم الحروف اس موقع پر اپنے تمام معاونین بالخصوص عالی جناب محمد اسرائیل، تلیا گڑھ، گوشائیں گنج، فیض آباد، عالی جناب حاجی محمد مقبول احمد، مظفر پور، کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا  ہے، جنہوں نے اپنا قیمتی مالی تعاون پیش کرکے اس کتاب کی اشاعت میں آسانی کی سبیل پیدا کی، اللہ تعالی ان سب کی رزق و عمر میں خوب خوب برکتیں عطا فرمائے اور دیگر مالدار حضرات کو بھی اس طرح کے  اہم و پائدار کاموں میں اپنا قیمتی تعاون پیش کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین۔
                اللہ تعالی راقم الحروف کی اس کتاب  کو قبول فرمائے، آخرت میں ذریعہ نجات بنائے،  تمام اساتذہ کرام، اہل خانہ، بھائی، بہن، معاونین، مخلصین، اور دعا گو وغیرہ حضرات کو دارین کی سعادتیں عطا فرمائے اور بالخصوص والدہ محترمہ کا سایہ ہم پر تا دیر قائم رکھے اور ہر حال میں خلوص کے ساتھ ان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
ابوعاتکہ ازہار  احمد امجدی ازہری غفرلہ


([1]). (العلق:۹۶، آیت:۱۵)
([2]).(المجادلۃ:۵۸، آیت:۱۱)
([3]).(سنن الترمذی، باب ماجاء فی تعلیم السریانیۃ، ج۵ص۶۷، رقم:۲۷۱۵، ط: مصطفی البابی الحلبی، مصر)
([4]).(سنن ابن ماجہ، باب فضل العلماء و الحث علی طلب العلم، ج۱ص۸۱، رقم: ۲۲۴، ط: دار إحیاء الکتب العربیۃ)
([5]).(التین:۹۵، آیت:۴۶)
([6]).(مسند أحمد، ج۲۳ص۲۲۸، رقم:۱۴۹۷۹، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)
([7]).(صحیح البخاری، کتاب البیوع، باب فی العطار و بیع المسک، ج۳ص۶۳، رقم:۲۱۰۱، ط: دار طوق النجاۃ)
([8]).(صحیح البخاری،کتاب النکاح، بَابُ {قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا}، ج۷ص۲۶، رقم:۵۱۸۸، ط: دار طوق النجاۃ)
([9]).(صحیح البخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: الفتنۃ من قبل المشرق، ج۹ص۵۳، رقم:۷۰۹۳، ط:دار طوق النجاۃ)
([10]).(صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ، باب قراءۃ الفاجر و المنافق، ج۹ص۱۶۲، رقم:۷۵۶۲، ط: دار طوق النجاۃ)
([11]).(إرشاد الساری، امام قسطلانی، ج۱۰ص۴۷۹، ط:المطبعۃ الکبری الأمیریۃ، مصر)
([12]).(صحیح البخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: الفتنۃ من قبل المشرق، ج۹ص۵۴، رقم:۷۰۹۴، ط: دار طوق النجاۃ)
([13]).(صحیح البخاری، کتاب استتابۃ المرتدین، باب قتل الخوارج  و الملحدین بع إقامۃ  الحجۃ علیھم، ج۹ص۱۶، رقم: ۶۹۳۰،ط:دار طوق النجاۃ)
([14]).(صحیح البخاری، کتاب المغازي، باب بعث علی بن أبي طالب وخالد بن الوليد إلی اليمن قبل حجۃ الوداع،ج۵ص۱۶۳، رقم:۴۳۵۱، ط: دار طوق النجاۃ)
([15]).(سنن النسائی، باب من شھر سیفہ ثم وضعہ فی الناس، ج۷ص۱۱۹، رقم:۴۱۰۳، ط:مکتب المطبوعات الإسلامیۃ، بیروت)
([16]).(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب التحریض علی قتل الخوارج، ج۲ص۷۴۸، رقم:۱۰۶۶، ط:دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
([17]).(سنن أبی داؤد،باب فی قتل الخوارج، ج۴ص۲۴۳، رقم:۴۷۶۵، ط:المکتبۃ العصریۃ، بیروت)
([18]).(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الإسلام، ج۴ص۲۰۰، رقم:۳۶۱۰، ط:دار طوق النجاۃ)
([19]).(صحیح البخاری، کتاب الأنبیاء، باب قول الله عز وجل: {وأما عاد فأهلكوا بريح صرصر} [الحاقۃ: ۶]: شديدة، {عاتية} [الحاقۃ: ۶]، ج۴ص۱۳۷، رقم:۳۳۴۴، ط:دار طوق النجاۃ)
([20]).(تفسیر الطبری، ج۶ص۱۹۸، رقم:۶۶۲۲، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)
([21]).(آل عمران:۳، آیت:۷)
([22]).(فتح الباری شرح صحیح البخاری، ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ، باب قتل الخوارج و الملحدین بعد إقامۃ الحجۃ علیہم،ج۱۲ص۲۸۶، ط:دار المعرفۃ، بیروت)
([23]).(ھود:۱۱، آیت:۱۱۳)
([24]).(الأنعام:۶، آیت:۶۸)
([25]).(مقدمۃ صحیح مسلم، باب فی الضعفاء والکذابین، ج۱ص۱۲، رقم:۷،ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، سنن أبی داود، کتاب السنۃ، باب فی القدر، ج۴ص۲۲۲، رقم:۴۶۹۱، ط: المکتبۃ العصریۃ، بیروت، سنن ابن ماجہ، باب فی القدر، ج۱ ص۳۵، رقم:۹۲، ط:دار إحیاء الکتب العربیۃ، البابی الحلبی، الضعفاء الکبیر،عقیلی، ج۱ص۳۶۰، رقم: ۳۱۸، ط: دار المکتبۃ العلمیۃ، بیروت)
([26]).(ھود:۱۱، آیت:۱۱۲)
([27]).(التوبۃ:۹، آیت:۶۵)
([28]).(الماعون:۱۰۷، آیت:۴۵)
([29]).(سنن أبی داود الطیالسی، ج۲ص۵۶۴، رقم: ۱۳۳۳، ط: دار ھجر، مصر)
([30]).(النور:۲۴، آیت:۵۵)
([31]).(آل عمران:۳، آیت:۱۴۰)
([32]).(الرعد:۱۳، آیت:۱۱)
([33]).(آل عمران:۳، آیت:۱۳۹)
([34]).(الکھف:۱۸، آیت:۱۰۷)

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts